
ذرا تصور کریں، آپ ایک صاف رات میں آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور وہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا! نہ ستارے، نہ چمکدار کہکشاں، نہ وہ خوبصورت نظارے جو ہمیں حیران کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ آج دنیا کے کئی بڑے شہروں جیسے نیویارک، ٹوکیو، ممبئی، لندن اور دبئی میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کہکشاں کا نظارہ نہیں کر پاتے۔
کہکشاں غائب ہونے کی بڑی وجوہات
کہکشاں یا ستارے ہمارے آسمان سے غائب نہیں ہوئے، بلکہ ہماری اپنی زندگی کی طرز نے ہمیں ان سے دور کر دیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج کے انسان کے لیے ستارے دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
- شہروں کی توسیع
جیسے جیسے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، وہاں بڑی بڑی عمارتیں، فیکٹریاں اور شاپنگ سینٹرز بن رہے ہیں۔ ان تمام چیزوں کی روشنی اور دھواں آسمان کو مزید مدھم بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے کہکشاں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ - فضائی آلودگی
فیکٹریوں، گاڑیوں اور دیگر ذرائع سے نکلنے والے دھوئیں میں موجود ذرات آسمانی روشنی کو جذب اور بکھیر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے آسمان اکثر دھندلا یا زرد رنگ کا نظر آتا ہے، خاص طور پر بڑے شہروں میں۔ - روشنی کی آلودگ
سب سے بڑی وجہ روشنی کی آلودگی ہے۔ شہروں میں بے تحاشا مصنوعی روشنی آسمان کو اتنا روشن کر دیتی ہے کہ ستاروں کی مدھم روشنی ہمیں نظر ہی نہیں آتی۔ چونکا دینے والے حقائق:دنیا کی 80% آبادی روشنی کی آلودگی کے نیچے رہ رہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں 60% لوگ رات کے وقت کہکشاں نہیں دیکھ سکتے.مصنوعی روشنی نہ صرف ستاروں کو چھپا دیتی ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
ہمارے اوپر ایک بھولا بسرا آسمان
حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، خاص طور پر نوجوان نسل، ملکی وے (Milky Way)کے وجود سے بالکل ناواقف ہیں۔ نیویارک، پیرس، ممبئی، لندن اور ٹوکیو جیسے میٹروپولیٹن علاقوں کے رہائشی مسلسل مصنوعی روشنی کے زیر اثر رہتے ہیں اور کبھی بھی ستاروں سے بھرے آسمان کا حیرت انگیز نظارہ نہیں دیکھ پاتے۔ یہ عدم واقفیت خاص طور پر نئی نسل میں زیادہ گہری ہے، جنہوں نے کبھی بھی حقیقی رات کا آسمان نہیں دیکھا۔
1994 میں لاس اینجلس میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا، جس کے نتیجے میں پورے شہر کی بجلی چلی گئی۔ جب رات کے وقت شہر اندھیرے میں ڈوب گیا، تو لوگوں نے پہلی بار ایک عجیب منظر دیکھا۔ سینکڑوں شہریوں نے ہنگامی مراکز کو فون کر کے آسمان میں نظر آنے والی چمکدار روشنیوں کے بارے میں دریافت کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے UFO (اڑن طشتری) سمجھا، جبکہ حقیقت میں وہ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے تھی، جو روشنی کی آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔
یہ واقعہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہماری مصنوعی روشنی نے کس حد تک ہمارے کائناتی نظارے کو ہم سے چھپا دیا ہے۔
کہاں جا کر کہکشاں دیکھی جا سکتی ہے؟
اگر آپ بھی کہکشاں کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ایسے مقامات پر جانا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی نہ ہو۔
- ریگستانی علاقے
- تھر ریگستان (پاکستان، بھارت)
- سہارا ریگستان (افریقہ)
- اٹاکاما ریگستان (چلی)
2. پہاڑی علاقے
- ہمالیہ (نیپال، بھارت، بھوٹان)
- گلگت بلتستان (پاکستان)
- راکی پہاڑیاں (امریکہ، کینیڈا)
3. قطبی علاقے
- شمالی اور جنوبی قطب
- ناروے اور فن لینڈ کے برفانی علاقے
4. اندھیرے محفوظ علاقے (Dark Sky Parks)
- آورا کی مکنزی، نیوزی لینڈ
- مونٹ میگنٹک، کینیڈا
- جاشوا ٹری نیشنل پارک، امریکہ
اس نقصان کے سنگین اثرات
- سائنس اور تحقیق پر اثر
- فلکیات (Astronomy) کے مشاہدات مشکل ہو گئے ہیں۔
- نئی دریافتوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔
2. ثقافتی اور تاریخی نقصان
- قدیم تہذیبوں میں ستاروں کو دیکھ کر راستے معلوم کیے جاتے تھے، لیکن اب یہ علم مٹتا جا رہا ہے۔
- مختلف مذاہب اور کہانیوں میں آسمانی ستاروں کا ذکر ملتا ہے، لیکن نئی نسل ان سے ناواقف ہو رہی ہے۔
3. ماحولیاتی نقصان
- مصنوعی روشنی کی زیادتی سے پرندے، کیڑے اور جانور متاثر ہو رہے ہیں۔
- کچھ خاص قسم کے پرندے رات کے وقت روشنی میں راستہ بھٹک جاتے ہیں اور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
- اندھیرے دوست روشنیوں کا استعمال
- ایسی لائٹس کا استعمال جو آسمان کے بجائے زمین پر روشنی ڈالیں۔
- ضرورت کے مطابق کم روشنی والے بلب استعمال کرنا۔
2. اندھیرے آسمان کے لیے مہم چلانا
- عوام میں آگاہی پیدا کی جائے کہ کیوں قدرتی رات ضروری ہے۔
- اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسٹار گیزنگ (Star Gazing) کے پروگرامز کرائے جائیں۔
3. اندھیرے علاقوں کا تحفظ
- دنیا میں ایسے مقامات کی حفاظت کی جائے جہاں قدرتی آسمان آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
- حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو غیر ضروری روشنی کو محدود کریں۔
کہکشاں ہمارا قدرتی ورثہ ہے
ہماری کہکشاں صرف ایک خوبصورت نظارہ نہیں بلکہ ہماری کائنات سے جُڑنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم نے روشنی کی آلودگی کو کم نہ کیا تو 2050 تک بڑے شہروں میں آسمان بالکل بدلا ہوا نظر آئے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ستاروں بھرا آسمان محفوظ کریں۔ آج ہی قدرتی راتوں کا تحفظ کریں تاکہ کل ہم بھی کہکشاں کو دیکھ سکیں۔