
ٹری مین سنڈروم، جسے طبی زبان میں "ایپی ڈرموڈسپلیسیا ویروکیفورمس” (Epidermodysplasia Verruciformis) کہا جاتا ہے، ایک نہایت پیچیدہ جلدی بیماری ہے جو انسانی جسم کی ظاہری ساخت کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس بیماری میں مریض کی جلد پر درخت کی چھال جیسی سخت، بے ترتیب اور بھاری ساخت کے مسے اُگ آتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ مسے اتنے زیادہ اور گہرے ہو جاتے ہیں کہ متاثرہ شخص کے ہاتھ، پاؤں، چہرہ اور دیگر اعضا لکڑی جیسے دکھائی دیتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اس کا جسم درخت میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اسی کیفیت کی وجہ سے عام طور پر اسے "ٹری مین سنڈروم” کہا جاتا ہے۔
یہ بیماری کسی وائرس یا بیکٹیریا سے نہیں پھیلتی بلکہ اس کی جڑ ایک جینیاتی نقص ہے جو موروثی طور پر والدین سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔ EVER1 یا EVER2 نامی جینز میں اگر خرابی ہو تو متاثرہ فرد کا مدافعتی نظام ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کے بعض اقسام، خاص طور پر HPV-5 اور HPV-8، کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔ عام انسان میں یہ وائرس کوئی خاص نقصان نہیں کرتا، لیکن اس جینیاتی خرابی والے افراد میں یہی وائرس خطرناک جلدی تبدیلیوں اور بے قابو مسوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ بیماری متعدی نہیں ہے اور صرف انہی افراد میں ظاہر ہوتی ہے جن کے والدین یہ جینیاتی خرابی رکھتے ہوں۔
ٹری مین سنڈروم کا پہلا مستند طبی حوالہ سن 1922 میں سامنے آیا جب دو فرانسیسی ماہرین جلد، فیلکس لووانڈوسکی اور ولہیلم لوٹز نے اس بیماری پر تحقیق کی اور اسے پہلی بار طبی دستاویزات کا حصہ بنایا۔ اسی لیے بعض اوقات اسے "لووانڈوسکی لوٹز ڈیسپلیسیا” بھی کہا جاتا ہے۔
مزید جانیے.
یہ کیسی دنیا ہے ,جہاں مائیں بچوں کو نمکین پانی پلاتی ہیں؟ غزہ کی سچائی.
دادی چاہیے؟ جاپان میں کرائے پر دادی ملتی ہے وہ بھی گھنٹے کے حساب سے۔
ایک سیکنڈ میں پورا نیٹ فلکس ڈاؤن لوڈ؟ جاپان نے نیا کمال کر دکھایا.
اس بیماری کو دنیا بھر میں تب شہرت ملی جب 2007 میں انڈونیشیا کے ایک شخص، "دے دے کوسوارا”، کے کیس کو عالمی میڈیا نے اُجاگر کیا۔ اس کے جسم، خاص طور پر ہاتھوں اور پاؤں پر درخت کی شاخوں جیسے سخت اور وزنی مسے اُگ آئے تھے۔ اسے بار بار سرجری کے ذریعے ان ساختوں سے نجات دلائی گئی، اور تقریباً 6 کلوگرام وزنی غیر معمولی جلد کو کاٹا گیا، مگر ہر بار یہ واپس آ جاتی۔ بالآخر وہ کئی سال کی جدوجہد کے بعد 2016 میں 42 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ابول بجندر اور سہانہ خاتون اس بیماری کے معروف مریضوں میں شامل ہیں۔ ابول بجندر ایک رکشہ ڈرائیور تھا جسے 2016 میں ڈھاکہ کے اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں اس پر بار بار سرجریاں کی گئیں، مگر بیماری قابو میں نہ آ سکی۔ سہانہ، جو صرف 10 سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوئی، بنگلہ دیش کی پہلی خاتون مریضہ کے طور پر سامنے آئی۔
پاکستان میں بھی اس بیماری کا کم از کم ایک تصدیق شدہ کیس موجود ہے۔ 2021 میں سندھ کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ نوجوان کے ہاتھوں پر درخت جیسے موٹے مسے نکل آئے، جسے کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں لے جایا گیا جہاں اسے ٹری مین سنڈروم تشخیص کیا گیا۔ چونکہ پاکستان میں عوامی شعور، جلدی بیماریوں کی تشخیص اور جینیاتی تحقیق محدود ہے، اس لیے اکثر ایسے مریض سامنے نہیں آ پاتے یا ان کی تشخیص دیگر بیماریوں سے الجھ جاتی ہے۔
جہاں تک علاج کی بات ہے، تو بدقسمتی سے ٹری مین سنڈروم کا اب تک کوئی مستقل، مکمل اور حتمی علاج موجود نہیں۔ یہ بیماری زندگی بھر ساتھ رہتی ہے، اور صرف اس کی علامات کو وقتی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ متاثرہ جلد یا مسوں کو سرجری کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، لیکن یہ اکثر دوبارہ اُگ آتے ہیں۔ لیزر تھراپی یا کریو تھراپی (جلد کو منجمد کرنے کا عمل) بھی کچھ مریضوں پر مؤثر رہا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ HPV ویکسین ابتدائی عمر میں دی جائے تو شاید اس بیماری کے کچھ پہلو قابو میں رکھے جا سکتے ہیں، لیکن یہ صرف احتیاطی قدم ہے، مکمل علاج نہیں۔