ایک ایسا جہاز جو 47 سال سے خلا میں اُڑ رہا ہے۔

Interstellar space Voyager 1
ایک ایسا مشن جو آج بھی مستقبل کی دنیا کو پیغام دے رہا ہے

اگر کوئی ایک چیز چُنی جائے جو انسان کے سائنسی کمالات، انجینئرنگ کی مہارت، اور کائنات کو سمجھنے کی جستجو کی بہترین مثال ہو، تو وہ ہے ناسا کا وائیجر 1 خلائی مشن۔یہ وہ خلائی جہاز ہے جو 1977 میں زمین سے روانہ کیا گیا، اور آج بھی، 45 سال سے زائد گزرنے کے باوجود، خلا میں مسلسل سفر کر رہا ہے۔یہ پہلا انسانی مشن ہے جو سورج کے دائرہ اثر سے نکل کر بین النجمی خلا (Interstellar Space) میں داخل ہو چکا ہے۔اس نے نہ صرف مشتری (Jupiter) اور زحل (Saturn) جیسے دیوقامت سیاروں کی حیرت انگیز تصاویر اور ڈیٹا فراہم کیا بلکہ انسانیت کی ایک "پیغام رسانی” کے طور پر خلا میں ہماری نمائندگی بھی کی ہے۔

وائیجر 1 کب لانچ کیا گیا؟

5 ستمبر 1977 کو ناسا نے وائیجر 1 کو خلا میں بھیجا۔اس وقت ناسا نے ایک "گرینڈ ٹور” مشن کا آغاز کیا جس کا مقصد نظام شمسی کے بیرونی سیاروں، خاص طور پر مشتری اور زحل کا قریب سے مطالعہ کرنا تھا۔اس مشن کا مقصد صرف تصویریں لینا نہیں تھا بلکہ ان سیاروں کے موسم، مقناطیسی میدان، چاندوں کی ساخت، اور دیگر خلائی عوامل کا تجزیہ کرنا تھا۔وائیجر 1 دراصل وائیجر 2 کے بعد لانچ ہوا تھا، لیکن زیادہ رفتار کے باعث یہ پہلے سیاروں تک پہنچا اور یوں "وائیجر 1” کہلایا۔



مشن کے مقاصد کیا تھے؟

ابتدائی طور پر وائیجر 1 کا مقصد صرف Jupiter اور Saturn کا قریب سے مشاہدہ کرنا تھا۔اس نے ان سیاروں کے کئی چاندوں کو بھی دریافت کیا اور اُن کی سطح اور فضا سے متعلق قیمتی معلومات زمین پر بھیجیں۔
مشتری کے عظیم سرخ دھبے (Great Red Spot)، اس کے مقناطیسی میدان اور اس کے چاند آئیو کی آتش فشانی سرگرمی وائیجر ہی نے پہلی بار دنیا کو دکھائی۔زحل کے گرد موجود رنگین حلقے اور اس کا بڑا چاند ٹائٹن (Titan)، جو زمین کے بعد واحد چاند ہے جس کی فضا ہے، یہ سب وائیجر 1 کی مدد سے دریافت ہوا۔بعد میں ناسا نے اس مشن کو بڑھاتے ہوئے اسے "انٹرسٹیلر مشن” بنا دیا تاکہ یہ خلا میں سورج کے دائرہ اثر سے باہر کی فضا کا مشاہدہ کرے۔

وائیجر 1 نے کون سا راستہ اختیار کیا؟

وائیجر 1 کا راستہ نہایت سائنسی بنیاد پر طے کیا گیا تھا۔اس نے gravity assist یعنی کششِ ثقل سے مدد لینے والا راستہ اختیار کیا۔سب سے پہلے یہ مشتری کے قریب گیا، جہاں اس سیارے کی کششِ ثقل نے اس کی رفتار میں اضافہ کر دیا، پھر یہ زحل کی جانب روانہ ہوا۔زحل کے پاس پہنچ کر، اس کی کششِ ثقل نے وائیجر 1 کو نظام شمسی کے مرکز سے دور دھکیل دیا، اور یوں اس کا رخ خلا کے ایسے حصے کی طرف ہو گیا جہاں انسان کا کوئی اور مشن پہلے نہیں گیا تھا۔

آج وائیجر 1 کہاں ہے؟

وائیجر 1 اس وقت زمین سے تقریباً 24 ارب کلومیٹر دور خلا میں موجود ہے، جو کسی بھی انسان کے بنائے گئے مشن سے کہیں زیادہ فاصلہ ہے۔یہ انٹرسٹیلر اسپیس میں موجود ہے — یعنی سورج کی کشش، مقناطیسی میدان اور شمسی ہواؤں کے دائرے سے باہر۔یہ اب بھی ناسا کے "ڈیپ اسپیس نیٹ ورک” کے ذریعے زمین سے رابطے میں ہے۔اگرچہ اس کے سگنلز کو زمین تک پہنچنے میں 22 گھنٹے سے زائد وقت لگتا ہے، لیکن پھر بھی یہ معمولی سگنلز بھیج کر ہمیں اس خلا کی معلومات دے رہا ہے جس کا تصور ہم زمین پر بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔

وائیجر 1 کس چیز سے بنا ہے؟

وائیجر 1 کی ساخت خاص طور پر خلا کے طویل سفر کے لیے بنائی گئی تھی۔اس کا ہائی گین اینٹینا زمین سے رابطے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اس میں ایک "گولڈن ریکارڈ” نصب ہے، جس میں 55 زبانوں میں پیغامات، زمین کی آوازیں، انسانی دل کی دھڑکن، جانوروں کی آوازیں، موسیقی، اور مختلف تصاویر شامل کی گئی ہیں۔یہ ریکارڈ اس امید کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ اگر یہ مشن کسی غیر زمینی مخلوق کو ملے، تو وہ انسانوں کے بارے میں کچھ جان سکیں۔

اس میں 10 سائنسی آلات لگائے گئے تھے، جو اب وقت کے ساتھ بند ہو رہے ہیں۔اس کے کمپیوٹر بہت سادہ تھے، جن کی میموری صرف 69 کلو بائٹس تھی — جو آج کے موبائل فون کے ایک ایپ سے بھی کم ہے۔

وائیجر 1 کو توانائی کہاں سے ملتی ہے؟

چونکہ وائیجر 1 سورج سے بہت دور چلا گیا ہے، اس لیے اسے شمسی توانائی سے نہیں چلایا جا سکتا۔اس کے لیے ناسا نے Radioisotope Thermoelectric Generators (RTGs) استعمال کیے، جو پلوٹونیم 238 سے حرارت پیدا کرتے ہیں، اور اس حرارت سے بجلی بنائی جاتی ہے۔یہ بجلی وائیجر کے تمام سسٹمز کو طاقت دیتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ توانائی کم ہوتی جا رہی ہے، جس کے باعث ناسا آہستہ آہستہ اس کے کچھ آلات بند کر رہا ہے تاکہ صرف ضروری چیزیں چلتی رہیں، جیسے کہ زمین سے رابطہ۔

وائیجر 1 کی اہمیت اور انسانی ورثہ

وائیجر 1 صرف ایک سائنسی مشن نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا سفیر بھی ہے۔یہ کائنات کی وسعتوں میں ہماری موجودگی کا نشان ہے۔یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان کی عقل، جستجو اور محنت ہمیں زمین سے اربوں کلومیٹر دور بھیج سکتی ہے۔یہ ایک ایسی خاموش صدا ہے جو وقت، فاصلوں اور خلا کی گہرائیوں میں گونج رہی ہے — شاید کبھی کوئی جواب دے، شاید نہیں۔لیکن وائیجر 1 نے انسان کو یہ سکھا دیا ہے کہ ناممکن صرف تب تک ہوتا ہے جب تک آپ کوشش نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے