
بحر الکاہل کے پرسکون پانیوں کے نیچے ایک ایسا راز چھپا ہے جو نہ صرف سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال رہا ہے بلکہ ایک ممکنہ قدرتی آفت کی پیشگی علامت بھی بن چکا ہے۔ یہ راز "پائتھیاس اویسس” کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سمندر کی گہرائیوں میں ایک مقام ہے جہاں سے تازہ اور گرم پانی مسلسل خارج ہو رہا ہے۔ اس غیر معمولی دریافت نے ماہرین ارضیات کی توجہ حاصل کی ہے کیونکہ اس کا تعلق زمین کی اندرونی سرگرمیوں سے ہے جو مستقبل میں ایک بڑے زلزلے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
یہ دریافت 2015 میں امریکی تحقیقاتی بحری جہاز آر وی تھامس جی تھامپسن کے ذریعے اس وقت ہوئی جب سائنسدانوں نے امریکی ریاست اوریگن کے ساحل سے تقریباً 80 کلومیٹر دور سمندر کی تہہ سے بلبلے نکلتے ہوئے دیکھے۔ ابتدائی طور پر یہ سمجھا گیا کہ یہ میتھین گیس ہے، لیکن جب ایک روبوٹک آبدوز بھیجی گئی تو معلوم ہوا کہ یہاں سے جو پانی نکل رہا ہے وہ نمکین نہیں بلکہ تازہ ہے۔ اس پانی کا درجہ حرارت اردگرد کے سمندری پانی سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا، اور اس میں وہ معدنیات موجود تھیں جو عام طور پر میٹھے پانی میں پائی جاتی ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہاں ایسی آبی مخلوقات بھی پائی گئیں جو عام طور پر دریائی یا نیم میٹھے پانی میں زندہ رہتی ہیں، جو کہ کھلے سمندر میں ایک غیر معمولی بات تھی۔
روبوٹک مشین نے سمندر کی تہہ میں کئی سوراخوں کی نشاندہی کی، جو تقریباً 11 کلومیٹر گہرائی پر واقع تھے۔ ان سوراخوں سے تازہ اور گرم پانی مسلسل اور تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔ سائنسدانوں نے جلد ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ کوئی عام قدرتی چشمہ نہیں بلکہ زمین کی پرتوں کے نیچے جاری ایک بڑی حرکت کا نتیجہ ہے، جس کا تعلق "کاسکیڈیا سبڈکشن زون” سے ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ایک چھوٹی سمندری پلیٹ "خوان ڈی فوکا” بڑی شمالی امریکی پلیٹ کے نیچے دھکیل رہی ہے۔ یہ عمل، جسے سبڈکشن کہتے ہیں، زمین کی گہرائی میں شدید دباؤ اور گرمی پیدا کرتا ہے۔
مزید جانیے.
دس کروڑ کی، 1نمبر والی پلیٹ خریدنے والا مزمل کریم کینسر سے چل بسا.
اسلام آباد،سیلابی ریلے میں بہہ جانے والی لڑکی کی تلاش ختم،غائبانہ جنازہ اداکردیا گیا.
او جی ڈی سی ایل،چاکر-1 ٹنڈو اللہ یار میں خام تیل کے ذخائر کی دریافت.
زمین کی تہوں میں موجود پانی ان پلیٹوں کے درمیان ایک قدرتی چکناہٹ کا کام دیتا ہے، جو ان کی حرکت کو ممکن بناتا ہے۔ لیکن جب یہ پانی زمین سے باہر نکلنے لگے، جیسا کہ پائتھیاس اویسس میں ہو رہا ہے، تو پلیٹوں کے درمیان رگڑ بڑھ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پلیٹیں آپس میں جکڑ جاتی ہیں، اور ان کے بیچ شدید توانائی جمع ہونے لگتی ہے۔ جب یہ توانائی اچانک خارج ہوتی ہے، تو ایک زبردست زلزلہ آتا ہے۔
اس قسم کی ایک مثال 26 جنوری 1700 کو سامنے آئی تھی، جب اسی علاقے میں ایک 9.0 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے نے بحرالکاہل میں ایک 40 میٹر بلند سونامی پیدا کی تھی، جو 8000 کلومیٹر دور جاپان تک جا پہنچی۔ اور وہاں تقریباً 20 ہزار افراد کی جان لے گئی۔ آج جو علامات پائتھیاس اویسس میں دیکھی جا رہی ہیں، وہ بالکل ویسی ہی ہیں جیسی اس عظیم زلزلے سے پہلے موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس چشمے کو ایک خطرناک علامت قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پانی کا یہ اخراج جاری رہا، تو زمین کی تہہ میں موجود قدرتی چکناہٹ ختم ہو جائے گی اور پلیٹیں مکمل طور پر لاک ہو جائیں گی۔ اس سے ایک اور زبردست زلزلہ آ سکتا ہے، جس کی شدت 9.0 ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ 2050 تک اس قسم کے بڑے زلزلے کے آنے کا امکان 37 فیصد ہے، جبکہ 2100 تک یہ خطرہ 90 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر ایسا زلزلہ آیا تو اس کی توانائی 1000 ہیروشیما بموں کے برابر ہو گی، اور شمال مغربی امریکہ کے شہر جیسے پورٹ لینڈ، سیئیٹل، اور وینکوور شدید تباہی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
پائتھیاس اویسس کی دریافت نے ماہرین کو زمین کے نیچے جاری ان حرکات پر نظر رکھنے کا ایک نایاب موقع دیا ہے۔ اب سائنسدان پانی کے درجہ حرارت، رفتار، اور کیمیائی اجزاء کی مدد سے زمین کے نیچے موجود دباؤ کو جانچ سکتے ہیں۔ اس تحقیق سے ایسے سسٹمز بنائے جا سکتے ہیں جو زلزلے سے پہلے خطرے کی وارننگ دے سکیں، اور یوں ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پائتھیاس اویسس ایک سادہ چشمہ نہیں، بلکہ زمین کے اندر جاری شدید تبدیلیوں کا اشارہ ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج جو کچھ ہم جانتے ہیں، وہ ہمیں کل کے بڑے خطرے سے بچا سکتا ہے — بشرطیکہ ہم سنجیدگی اختیار کریں، اپنے آپ کو تیار رکھیں۔