
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں ایک پرانے تاریخی تنازع کی نئی اور خطرناک شکل ہیں، جو اب کھلی جنگ کے دہانے پر ہے۔ یہ تنازع دراصل 1907 میں فرانسیسی نوآبادیاتی دور کے بنائے گئے نقشوں سے شروع ہوا، جن میں پریاہ ویہیر اور تا موآن تھوم جیسے تاریخی مندروں کو کمبوڈیا کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اگرچہ 1962 میں عالمی عدالت انصاف (ICJ) نے فیصلہ دیا کہ پریاہ ویہیر کمبوڈیا کی ملکیت ہے، اور 2013 میں اس فیصلے کی مزید وضاحت بھی کی گئی، مگر تھائی لینڈ نے مندر کے اردگرد کے علاقوں پر اب بھی دعویٰ برقرار رکھا ہوا ہے۔
فروری 2025 میں جب کمبوڈین فوجیوں نے تاموآن تھوم کے قریب قومی ترانہ گایا تو تھائی لینڈ نے اسے اشتعال انگیزی قرار دیا۔ اس کے بعد مئی 2025 میں ایک فائرنگ کے واقعے میں ایک کمبوڈین سپاہی ہلاک ہوا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر دراندازی کا الزام عائد کیا۔ جون میں صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب تھائی وزیراعظم پیٹونگٹارن شیناواترا اور سابق کمبوڈین حکمران ہن سین کے درمیان فون کال لیک ہوگئی، جس میں ذاتی اور سیاسی مفادات پر بات چیت نے دونوں ملکوں میں غصہ پیدا کر دیا۔ نتیجتاً، تھائی وزیراعظم کو معطل کر دیا گیا اور دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
مزید جانیے.
روس کا مسافر بردار طیارہ حادثے کا شکار،50 افراد لقمہ اجل بن گئے.
مہیرین چودھری: ایک ایسی ٹیچر جنہوں نے بچوں کی خاطر جان دے دی.
یہ کیسی دنیا ہے ,جہاں مائیں بچوں کو نمکین پانی پلاتی ہیں؟ غزہ کی سچائی.
24 جولائی 2025 کو یہ تنازع خطرناک سطح پر پہنچ گیا جب دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال شروع ہوا۔ تھائی لینڈ نے الزام لگایا کہ کمبوڈین فوجیوں نے پہلے حملہ کیا، جبکہ کمبوڈیا کا کہنا تھا کہ تھائی افواج نے F-16 طیاروں سے حملہ کیا اور زمین پر فوجیں اتاریں۔ جھڑپ میں BM-21 راکٹ، توپ خانے، ڈرونز اور ہوائی جہازوں کا استعمال کیا گیا۔ کئی علاقوں میں اسپتال، اسکول اور پیٹرول پمپ تباہ ہو گئے۔ دونوں طرف عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں، جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 14 افراد ہلاک اور 100,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا نے اس صورتحال کو نہایت سنجیدگی سے رپورٹ کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ” یہ محض زمینی تنازع نہیں بلکہ سیاسی مفادات اور قیادت کی ذاتی چپقلش ہے جو جنگ کا سبب بن رہی ہے۔” رائٹرز نے نشاندہی کی ہے "کہ تنازع اسی تاریخی زمین پر ہے جس پر پہلے ہی ICJ فیصلہ دے چکی ہے، مگر دونوں فریق اپنی ضد پر قائم ہیں۔” بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے "کہ F-16 طیاروں اور راکٹ سسٹمز کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معمولی جھڑپ نہیں، بلکہ مکمل جنگ ہے۔”
اگرچہ دونوں ممالک نے جنگ کا رسمی اعلان نہیں کیا، مگر صورتحال واضح طور پر بتاتی ہے کہ یہ ایک کھلی جنگ بن چکی ہے۔ دونوں حکومتیں اپنی کارروائیوں کو دفاعی عمل قرار دے رہی ہیں، مگر جس شدت سے راکٹ، توپیں، ہوائی حملے اور فضائیہ استعمال کی جا رہی ہے، وہ پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اقوام متحدہ اور ASEAN نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے، اور چین نے ثالثی کی پیشکش کی ہے، لیکن دونوں ممالک فی الحال پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
یہ تنازع نہ صرف ان دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر جلد از جلد سفارتی مداخلت نہ کی گئی تو یہ تنازع مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس کے نتائج پورے خطے کے لیے تباہ کن ہوں گے۔