
ہر بچہ دنیا میں ایک انمول تحفہ ہوتا ہے، جو اپنے ساتھ خاندان کے لیے خوشی، امید اور نئے خواب لاتا ہے۔ تاہم، کبھی کبھار قدرت کا فیصلہ ہماری سمجھ سے بالا ہوتا ہے، اور کچھ بچے ایسی حالت میں پیدا ہوتے ہیں جسے معاشرہ "غیر معمولی” قرار دیتا ہے؛ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بچوں کو اکثر چھپا دیا جاتا ہے یا نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، انہی "غیر معمولی” بچوں میں سے کچھ ایسے قیمتی موتی ثابت ہوتے ہیں جو دنیا کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ سوہنا اور موہنا سنگھ ایسے ہی دو جڑواں بھائی ہیں جنہوں نے جسمانی چیلنجز کے باوجود نہ صرف باوقار زندگی گزاری بلکہ اپنی ہمت اور عزم سے معاشرے کو ایک نئی سوچ، نئی روشنی اور امید کا نیا سبق بھی دیا۔
یہ جڑواں بھائی 2003 میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے بعد ہی یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ یہ جُڑے ہوئے (conjoined twins) ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب قدرت کی تخلیق نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ دونوں کا جسم ایک تھا مگر سر الگ۔ طبی اعتبار سے ایسی پیدائش دنیا میں لاکھوں میں ایک بار ہوتی ہے۔ ان کی حالت کو دیکھ کر والدین شاید خوف یا مایوسی کا شکار ہو گئے، اور جب ان بچوں کوماں،باپ کی سب سے زیادہ ضرور تھی، اسی وقت والدین انہیں صرف دو ماہ کی عمر چھوڑ دیا.
ان کا بچپن بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع ایک پناہ گاہ میں گزرا، جو یتیم اور غریب بچوں کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اسی ادارے نے انہیں گود لیا، ان کی پرورش کی، اور انہیں وہ سب کچھ دیا جس کی انہیں ضرورت تھی، چاہے وہ محبت ہو، خوراک، تعلیم یا تربیت۔ دیکھ بھال کرنے والی خواتین نے ماں کا کردار ادا کیا، اور اساتذہ نے باپ کی طرح ان کی رہنمائی کی۔ ان کا ہر دن ایک امتحان ہوتا، لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔
مزید جانیے.
چاند پر عمارتیں؟ چین نے اینٹیں بنانے والی خلائی مشین بنالی.
بھارت میں ایک سالہ بچے نے زہریلے کوبرا کو دانتوں سے مار ڈالا.
سونامی کی تباہی، زلزلے کے بعد روس سمیت درجنوں ملک پانی میں ڈوب گئے.
سوہنا اور موہنا کی جسمانی ساخت واقعی غیرمعمولی ہے۔ ان کے دو سر، دو دل، دو ریڑھ کی ہڈیاں، دو گردے، اور چار بازو ہیں۔ مگر ان کا ایک جگر، ایک معدہ اور دو ٹانگیں ہیں۔ ان کے دماغ بالکل الگ ہیں، سوچنے کا انداز، پسند، ناپسند، آواز، اندازِ گفتگو — سب مختلف ہے۔ وہ دو الگ شخصیتیں ہیں، لیکن ایک ہی جسم میں بند۔ ڈاکٹرز نے واضح طور پر کہا تھا کہ انہیں علیحدہ کرنا خطرناک ہوگا، اور ممکن ہے کہ اس سے دونوں میں سے ایک یا دونوں کی جان چلی جائے۔
بچپن ہی سے ان دونوں بھائیوں کو بجلی اور الیکٹرانکس میں دلچسپی تھی۔ ان کی پرورش کرنے والے ادارے کے اساتذہ کے مطابق وہ ہر وقت پنکھے، لائٹ، اور دیگر برقی آلات کی خرابیوں کو ٹھیک کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ انہوں نے الیکٹرانکس میں ڈپلومہ حاصل کیا اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کیا کہ معذوری ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔
زندگی نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب پنجاب اسٹیٹ پاور کارپوریشن لمیٹڈ (PSPCL) کے افسران نے ان کی مہارت کو دیکھا۔ جب وہ ایک تربیتی مقام پر گئے تو وہاں سوہنا اور موہنا نے اپنی دلچسپی اور قابلیت سے سب کو متاثر کر دیا۔ ادارے کے اعلیٰ افسر وینو پرساد کے مطابق یہ دونوں تکنیکی طور پر ماہر تھے، اس لیے انہیں معذور افراد کے کوٹے کے تحت ملازمت دی گئی۔ اب یہ دونوں PSPCL میں بطور الیکٹریشن کام کر رہے ہیں.
یہ کہانی صرف دو جُڑے ہوئے بھائیوں کی نہیں، بلکہ انسانیت، ہمدردی، اور حوصلے کی کہانی ہے۔ سوہنا اور موہنا ان ہزاروں افراد کے لیے مثال ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی کمی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے سکھایا کہ اگر عزم ہو، تو جسم کی رکاوٹیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، اور اگر معاشرہ ساتھ دے، تو معجزے روز ہو سکتے ہیں۔