
جنوبی کوریا کا سرسبز و شاداب جزیرہ جیجو، جسے اکثر "کوریا کا ہوائی” کہا جاتا ہے، اپنی آتش فشانی چٹانوں، دلکش ساحلوں اور پرتعیش سیاحتی مقامات کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن اس دل فریب منظرنامے کے پیچھے محنت و مشقت کی ایک ایسی دنیا بھی آباد ہے جس کا مرکزی کردار وہ تارکین وطن کارکن ہیں جو اس جزیرے کی معیشت، خاص طور پر ماہی گیری کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کارکنوں کے درمیان، اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور، ایک کوریائی نوجوان، ناصر ہانگ سک سیونگ، نے ہمدردی، بھائی چارے اور ایمان کی ایک ایسی شمع روشن کی ہے جس اس نے پورے جزیرے کو روشن کر دیا ہے۔
قبولِ اسلام کا سفر
ناصر ہانگ سک سیونگ، جن کی عمر 30 کی دہائی کے وسط میں ہے، کا اسلام کی طرف سفر فہم و فراست اور انسانیت دوستی پر مبنی ہے۔ 2023 میں اسلام قبول کرنے سے قبل، ناصر انچیون شہر میں ایک گیسٹ ہاؤس چلاتے تھے۔ اس دوران ان کا واسطہ دنیا بھر سے، بالخصوص مسلم ممالک سے آنے والے سیاحوں سے ہوا۔ مغربی میڈیا میں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی منفی تصویر کے برعکس، ناصر نے اپنے مسلمان مہمانوں کو انتہائی مہربان، باوقار اور پرامن پایا۔ ان کے حسنِ اخلاق اور کردار نے ناصر کے دل پر گہرا اثر چھوڑا اور انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ذاتی تجربات اور مطالعہ بالآخر ان کے شرح صدر کا باعث بنا اور انہوں نے دینِ اسلام کو اپنے طرزِ زندگی کے طور پر قبول کر لیا۔
مزید جانیے.
اگر تمام انسان ایک ساتھ سمندر میں بیٹھ جائیں تو کیا ہوگا؟
ایک ایسا شخص جس نے اپنی ماں پر مقدمہ کر دیا.
ایک ایسا جہاز جو 47 سال سے خلا میں اُڑ رہا ہے۔
جیجو کے مسلم کارکنوں کو درپیش چیلنج
اسلام قبول کرنے کے بعد، ناصر جیجو جزیرے پر واقع اپنے آبائی گھر میں منتقل ہو گئے، جسے انہوں نے ایک فش فارم کے ساتھ وراثت میں پایا تھا۔ یہاں آ کر انہیں جزیرے کی مسلم کمیونٹی، جو زیادہ تر انڈونیشیا، پاکستان اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں پر مشتمل ہے، کو درپیش ایک سنگین مسئلے کا ادراک ہوا۔
جیجو جزیرے پر سرکاری طور پر صرف ایک ہی مسجد قائم ہے، جو جیجو شہر میں واقع ہے۔ یہ مسجد جزیرے کے جنوبی ساحلی علاقوں، جہاں زیادہ تر فش فارمز اور ماہی گیروں کی رہائش گاہیں ہیں، سے تقریباً 40 سے 50 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ماہی گیری کا کام انتہائی سخت اور چوبیس گھنٹے کی مسلسل توجہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ ان حالات میں، کارکنوں کے لیے، خاص طور پر جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے، گاڑی کے ذریعے ایک گھنٹے سے زائد کا سفر طے کر کے مسجد تک پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔
نتیجتاً، یہ مسلم کارکن اجتماعی عبادت کے بنیادی حق اور روحانی سکون سے محروم تھے۔ وہ اکثر اپنے تنگ رہائشی کمروں کے کسی کونے میں انفرادی طور پر نماز ادا کرنے پر مجبور تھے۔ یہ صورتحال ناصر کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام میں اجتماعی نماز، بالخصوص نمازِ جمعہ کی کیا اہمیت ہے۔
گھر سے مصلیٰ تک
اپنے مسلمان بھائیوں کی اس روحانی پیاس کو محسوس کرتے ہوئے، ناصر نے ایک غیر معمولی فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھر کے ایک بڑے حصے کو مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مصلیٰ کے طور پر وقف کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ فیصلہ ذاتی قربانی کا متقاضی تھا۔ انہوں نے بتایا، "جب میں اس گھر میں آیا تو میرے پاس بنیادی فرنیچر تک نہیں تھا، لیکن میرے لیے سب سے پہلی ترجیح اس مصلیٰ کو قائم کرنا تھا۔”
ناصر نے ذاتی طور پر اس جگہ کی تزئین و آرائش کی۔ انہوں نے فرش پر صاف ستھرے قالین بچھائے، دیواروں کو سادہ اور پروقار رکھا، اور قبلے کی سمت کی واضح نشاندہی کی۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی لائبریری بھی قائم کی جہاں مختلف زبانوں، بشمول عربی، انگریزی اور کوریائی، میں قرآن پاک کے نسخے اور دیگر اسلامی کتب رکھی گئی ہیں۔ اس مصلیٰ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے تاکہ کارکن اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت آ کر نماز ادا کر سکیں اور روحانی سکون حاصل کر سکیں۔
ایک روحانی مرکز اور کمیونٹی ہب کا قیام
ناصر کا یہ مصلیٰ اب صرف ایک نماز کی جگہ نہیں رہا، بلکہ یہ مقامی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک سماجی اور روحانی مرکز بن چکا ہے۔ ہر جمعہ کو یہاں درجنوں کارکن جمع ہو کر اجتماعی نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کے بعد وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں اور پردیس میں اپنے پن کا احساس پاتے ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن، خالد حسین، جو گزشتہ کئی سالوں سے جیجو میں کام کر رہے ہیں، اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہاں آنے سے پہلے، ہم جمعہ کی نماز نہیں پڑھ پاتے تھے۔ اب، الحمدللہ، ہم نہ صرف نماز ادا کرتے ہیں بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں سے بھی ملتے ہیں۔ یہ جگہ ہمارے لیے اللہ کا ایک تحفہ ہے۔”
ناصر خود ان کارکنوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، ان کی مشکلات سنتے ہیں اور ایک مقامی کوریائی ہونے کے ناطے ان کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔