دادی چاہیے؟ جاپان میں کرائے پر دادی ملتی ہے وہ بھی گھنٹے کے حساب سے۔

دنیا میں آپ نے کرائے پر گاڑیاں دیکھی ہوں گی، مکان، کیمرے یا یہاں تک کہ شادی کے جوڑے بھی، لیکن جاپان نے رشتوں کو بھی ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ وہاں ایک ایسی سروس متعارف کرائی گئی ہے جو انسانی جذبات اور تنہائی جیسے مسئلے کو عملی طور پر حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اب جاپان میں کوئی بھی شخص کسی بزرگ خاتون، یعنی نانی یا دادی جیسی شخصیت کو مخصوص وقت کے لیے "کرائے” پر حاصل کر سکتا ہے — نہ صرف ایک ساتھی کے طور پر بلکہ زندگی کے اہم مواقع پر ان کی کمی محسوس نہ ہو، اس مقصد کے لیے بھی۔

یہ منفرد سروس جاپانی کمپنی Client Partner نے متعارف کروائی ہے، جس کا نام رکھا گیا ہے "OK Grandma”۔ اس سروس کے تحت 60 سے 94 سال کی عمر کی خواتین کو منتخب کیا جاتا ہے جنہیں لوگ اپنی ضروریات کے مطابق دادی یا نانی بنا کر اپنے گھر بلا سکتے ہیں۔ یہ خواتین کسی تقریب میں آپ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہیں، آپ کو گھر کے کام کاج میں مدد دے سکتی ہیں، پرانے پکوان سکھا سکتی ہیں، آپ کی بات سن سکتی ہیں، مشورہ دے سکتی ہیں، یا صرف وقت گزارنے کے لیے آپ کا ساتھ دے سکتی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق جاپان میں بہت سے نوجوان یا اکیلے رہنے والے افراد اپنی شادیوں، سالگرہ کی تقریبات، یا زندگی کے ان لمحوں میں کسی بزرگ کے لمس کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں، جہاں روایتی طور پر دادی یا نانی موجود ہوتیں، دعائیں دیتیں، خوشیاں مناتیں، یا اپنی باتوں سے ماحول کو گرم رکھتیں۔ یہی کمی اب کرائے پر حاصل کی گئی دادی پوری کرتی ہے، اور وہ بھی مکمل خلوص، تجربے، اور اپنائیت کے ساتھ۔



اس سروس کا معاوضہ فی گھنٹہ 3300 جاپانی ین رکھا گیا ہے، جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 6300 روپے بنتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی دورے یا سفر پر دادی کو ساتھ لے جانا چاہے تو اس کے لیے اضافی 3000 ین چارج کیے جاتے ہیں۔ یہ خواتین مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور ان کا سلیکشن باقاعدہ انٹرویوز اور صحت کی جانچ کے بعد کیا جاتا ہے تاکہ وہ کلائنٹس کے لیے نہ صرف محفوظ بلکہ فائدہ مند بھی ثابت ہوں۔

یہ سروس جاپان کے بدلتے ہوئے معاشرتی نظام کی ایک حقیقت بیان کرتی ہے، جہاں بزرگوں کی تعداد تو بڑھ رہی ہے لیکن خاندانی رشتے اور جذباتی تعلقات کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں کی نئی نسل تنہائی کا شکار ہے، اور روایتی خاندان اب صرف یادوں میں رہ گئے ہیں۔ ایسے میں "OK Grandma” جیسی سروس ایک جذباتی، سماجی اور عملی ضرورت بن چکی ہے، جو نوجوانوں کو وقتی سہارا دیتی ہے اور بزرگ خواتین کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نیا مقصد، عزت اور آمدنی کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔

لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کریں، تو ہمیں واقعی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں آج بھی خاندانی نظام زندہ ہے۔جہاں نانی، دادی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں — سب ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں۔ وہ رشتے جنہیں جاپان میں پیسے دے کر حاصل کرنا پڑتا ہے، وہ ہمیں فطری طور پر محبت، اپنائیت اور دعاؤں کے ساتھ ملے ہیں۔

ہمیں رشتوں کی قدر کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی میں وہ لوگ موجود ہیں جو بنا کسی معاوضے کے ہمیں وقت، پیار اور نصیحت دیتے ہیں۔ کیونکہ جو نعمتیں ہمیں قدرتی طور پر ملی ہیں، کہیں اور دنیا میں لوگ ان کے لیے پیسے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔

اپنے بزرگوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتیں سنیں، ان کا احترام کریں — کیونکہ یہ صرف ناطے نہیں، ہماری اصل ہیں… اور یہی اصل ہمیں دنیا سے مختلف اور خوش نصیب بناتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے