پاکستان کرکٹ میں کپتانی کا بحران، سنیل گواسکر نے کیا کہا؟

کرکٹ کی دنیا میں جہاں ہر روز نئے چہرے آتے ہیں، وہیں کچھ کھلاڑی اپنی کارکردگی، مستقل مزاجی اور صلاحیتوں کی بدولت ایک منفرد مقام بنا لیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں بابر اعظم اور محمد رضوان کا شمار بھی ایسے ہی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بیٹنگ سے دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ میں کپتانی کے حوالے سے اکثر بحثیں چھڑی رہتی ہیں، اور ہر ٹورنامنٹ کے بعد قیادت پر سوالات اٹھنا معمول بن چکا ہے۔

اسی پس منظر میں بھارتی کرکٹ لیجنڈ اور تجزیہ کار سنیل گواسکر نے بابر اعظم اور محمد رضوان کی کارکردگی، قیادت اور پاکستانی کرکٹ میں بار بار کپتان بدلنے کے رجحان پر کھل کر بات کی۔ ان کا بیان نہ صرف حقیقت پسندانہ تھا بلکہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک اہم پیغام بھی تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سنیل گواسکر نے بابر اور رضوان کے بارے میں کیا کہا اور ان کے خیالات میں کیا خاص بات تھی۔

بابر اعظم: کلاس کا دوسرا نام

سنیل گواسکر نے بابر اعظم کی بیٹنگ کی دل کھول کر تعریف کی اور انہیں پاکستان کا سب سے بہترین بلے باز قرار دیا۔ ان کے مطابق بابر کی تکنیک، شاٹ سلیکشن اور میدان میں اعتماد کسی بھی عالمی معیار کے کھلاڑی کے برابر ہے۔

انہوں نے بابر کی فارم کے اتار چڑھاؤ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ میں ہر کھلاڑی پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب وہ اپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھا پاتا۔ ویرات کوہلی کے بارے میں مثال دیتے ہوئے گواسکر نے کہا کہ: ” جب کوہلی کی فارم خراب ہوئی تھی تو کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ انہیں ٹیم سے نکال دیا جائے، بلکہ ان پر اعتماد کیا گیا، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ "بابر اعظم بھی ایک عالمی معیار کے کھلاڑی ہیں، اور انہیں صرف چند ناکام میچوں کی بنیاد پر نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔”

پاکستان میں کپتانی کی تبدیلی: سنیل گواسکر نے حقیقت بیان کر دی

پاکستان کرکٹ میں کپتانی ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ کبھی بابر کو کپتان بنایا جاتا ہے، کبھی شاہین آفریدی کو، اور کبھی کوئی اور نیا نام سامنے آجاتا ہے۔ اس صورتحال پر سنیل گواسکر نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا:

"اگر ہر ٹورنامنٹ کے بعد کپتان بدلنا ہے، تو پھر بہتر ہوگا کہ ہر میچ کے لیے پہلے سے ہی ایک نیا کپتان نامزد کر دیا جائے۔ کیا یہ کوئی مذاق ہے کہ آپ ہر چند ماہ بعد قیادت بدل دیتے ہیں؟ کسی بھی ٹیم کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک مستقل مزاج کپتان دیا جائے، تاکہ وہ ایک مضبوط حکمت عملی تیار کر سکے اور ٹیم کو آگے لے جا سکے۔”

محمد رضوان: مستقل مزاجی کی مثال

محمد رضوان کی بیٹنگ اور فٹنس نے انہیں نہ صرف پاکستانی ٹیم بلکہ دنیا بھر میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پہچان دلائی ہے۔ سنیل گواسکر کا کہنا تھا کہ رضوان کی سب سے بڑی خوبی ان کی مستقل مزاجی ہے۔ وہ کسی بھی مشکل صورت حال میں سنبھل کر کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے لیے کئی اہم فتوحات میں مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔

گواسکر نے خاص طور پر اس بات کو اجاگر کیا کہ محمد رضوان کی محنت اور عزم انہیں دیگر کھلاڑیوں سے ممتاز بناتے ہیں، اور ان جیسے کرکٹرز کسی بھی ٹیم کے لیے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔

بابر اور رضوان کی جوڑی: پاکستان کی کرکٹ کا ستون

بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی دنیا بھر میں اپنی شراکت داری کی وجہ سے مشہور ہو چکی ہے۔ ان دونوں نے کئی بار ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گواسکر کے مطابق، جب یہ دونوں کھلاڑی کریز پر موجود ہوتے ہیں، تو پاکستانی ٹیم کا اعتماد آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ میں پارٹنرشپ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اور بابر اور رضوان کی جوڑی پاکستان کے لیے وہی کردار ادا کر رہی ہے جو کبھی بھارت میں سچن ٹنڈولکر اور سورو گنگولی کی جوڑی نے ادا کیا تھا۔ اگر ان دونوں کھلاڑیوں کو مزید مواقع دیے گئے اور ان پر اعتماد برقرار رکھا گیا، تو پاکستان کرکٹ کو مزید بلندیوں پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کیا پاکستان کرکٹ کو سنیل گواسکر کے مشورے پر غور کرنا چاہیے؟

سنیل گواسکر کے تبصرے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا تجربہ اور گہری کرکٹ سمجھ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بار بار کپتانی کی تبدیلی کے بجائے ایک مستحکم قیادت پر توجہ دے اور اپنے بہترین کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ فراہم کرے، تو ٹیم کی کارکردگی میں زبردست بہتری آ سکتی ہے۔

بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے کھلاڑی پاکستان کرکٹ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان پر اعتماد کرنا، انہیں وقت دینا اور ان کے فیصلوں کی حمایت کرنا ہی ٹیم کو ایک مضبوط اور مستحکم مقام دلا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سنیل گواسکر کی باتوں کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتا ہے، یا پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے