
میرپور، جو آزاد کشمیر کا ایک اہم شہر ہے، پاکستان میں "منی انگلینڈ” کے نام جانا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک پاکستانی شہر کو برطانیہ جیسے ملک سے تشبیہ کیوں دی جاتی ہے؟ یہ صرف خوبصورت گھروں یا انگریزی بولنے والے لوگوں کی بات نہیں—اس کے پیچھے ایک حیران کن تاریخ اور بےمثال قربانیاں شامل ہیں۔یہ محض ایک لقب نہیں، بلکہ ہجرت، محنت اور کامیابی کی ایک سچی داستان ہے.
کہانی کا آغاز 1960 کی دہائی میں ہوا جب پاکستان میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو اس کے نتیجے میں پرانے میرپور شہر کا بڑا حصہ زیر آب آ گیا۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ حکومتِ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ان بے گھر ہونے والے میرپوری افراد کو برطانیہ میں آباد ہونے کے لیے خصوصی ویزے اور روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔ یہ وہی دور تھا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو لیبر کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے، برطانیہ نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی ممالک سے سستے مزدوروں کو مدعو کیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔
مزید جانیے.
چاند پر عمارتیں؟ چین نے اینٹیں بنانے والی خلائی مشین بنالی.
بھارت میں ایک سالہ بچے نے زہریلے کوبرا کو دانتوں سے مار ڈالا.
اسلام آباد،سیلابی ریلے میں بہہ جانے والی لڑکی کی تلاش ختم،غائبانہ جنازہ اداکردیا گیا.
یہاں سے وہ سفر شروع ہوا جس نے میرپور کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ ہزاروں میرپوری خاندان برطانیہ کے شہروں جیسے برمنگھم، بریڈفورڈ، لوٹن، مانچسٹر اور شیفیلڈ میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے فیکٹریوں، بسوں، اسٹورز اور تعمیراتی شعبوں میں کام کر کے محنت کے ذریعے اپنی زندگی بہتر بنائی۔ لیکن اُن کی نظریں ہمیشہ وطن پر رہیں۔ وہ اپنے گھروں کو بھولے نہیں، اور یوں انہوں نے ہر ماہ پاکستان پیسے بھیجنے شروع کیے۔ یہی ترسیلات زر میرپور کی قسمت بدلنے کا آغاز تھیں۔
ان پیسوں سے میرپور میں بڑی بڑی کوٹھیاں، شاندار شادی ہالز، جدید ہسپتال، نجی اسکول اور بازار وجود میں آئے۔ آج میرپور کی گلیوں میں چلتے ہوئے آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے کسی شہر میں نہیں بلکہ برطانیہ کے کسی قصبے میں ہوں۔ یہاں کے لوگ انگریزی روانی سے بولتے ہیں، نوجوان مغربی فیشن کو فالو کرتے ہیں، اور تعلیمی نظام بھی کسی حد تک برطانوی معیار کے مطابق ہے۔ اکثریت کے رشتہ دار برطانیہ میں ہیں اور سال میں ایک بار ضرور "چھٹیاں گزارنے” آتے ہیں۔
برطانیہ اور میرپور کے تعلقات صرف ثقافت یا معیشت تک محدود نہیں، بلکہ کھیلوں کے میدان میں بھی یہ رشتہ خوب چمکتا ہے۔ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دو معروف کھلاڑی، معین علی اور عادل رشید، میرپوری نژاد ہیں۔ معین علی، جو برمنگھم میں پیدا ہوئے، ایک بہترین آل راؤنڈر ہیں اور اپنے کشمیری پس منظر پر فخر کرتے ہیں۔ ان کا خاندان میرپور سے تعلق رکھتا ہے عادل رشید، ایک ماہر لیگ اسپنر ہیں، جنہوں نے 2019 میں انگلینڈ کی ورلڈ کپ فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کامیابی میرپور کے نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
سیاسی سطح پر بھی میرپور کی آواز برطانیہ میں سنائی دیتی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں کئی میرپوری نژاد ممبران موجود ہیں جو نہ صرف اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر بات کرتے ہیں بلکہ کشمیر کے مسئلے کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے میرپور کا نام برطانیہ کے ایوانوں میں بھی گونجتا ہے۔
اگرچہ میرپور کی ترقی قابلِ فخر ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ اوورسیز سرمایہ کاری نے جائیداد کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا ہے، جس کی وجہ سے مقامی افراد کے لیے گھر خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی اور مشرقی طرزِ زندگی کے درمیان فرق نے نوجوان نسل میں ثقافتی کشمکش بھی پیدا کی ہے۔
اس کے باوجود، "منی انگلینڈ” کا لقب میرپور کے لیے ایک ایسی پہچان بن چکا ہے جس پر نہ صرف میرپوری، بلکہ پورا پاکستان فخر کرتا ہے۔ یہ شہر ایک زندہ مثال ہے کہ ہجرت صرف مشکل نہیں ہوتی، بلکہ اگر اس کے ساتھ محنت، صبر اور وابستگی ہو تو وہ زمین سے لے کر پہچان تک سب کچھ بدل سکتی ہے۔ میرپور کی یہ کہانی صرف ایک شہر کی نہیں، بلکہ لاکھوں دلوں کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے جس نے پاکستان کے ایک گوشے کو دنیا سے جوڑ دیا۔