مریخ پر مکڑی جیسے نشانات کا معمہ حل ہو گیا.

کئی سالوں سے سائنس دان مریخ کے جنوبی قطب کے قریب کچھ عجیب و غریب سیاہ دھبوں کو دیکھ کر حیران تھے۔ خلا سے لی گئی تصاویر میں یہ دھبے کسی مکڑی کے جیسے نظر آتے تھے—درمیان میں ایک نقطہ اور اس سے پھیلتی ہوئی سیاہ لکیریں، بالکل جیسے مکڑی کے پاؤں۔ ان نشانات کو دیکھ کر یہ خیال آتا تھا کہ شاید مریخ پر کوئی مخلوق ہے۔ لیکن اب ناسا نے آخرکار اس راز سے پردہ اٹھا لیا ہے—اور ان "مکڑیوں” کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

مریخ کی "مکڑیاں” کیا ہیں؟

یہ مکڑی جیسے نشان دراصل زندہ مخلوق نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل کا نتیجہ ہیں جو صرف مریخ کی بہار کے موسم میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان نشانات کو سائنسی زبان میں آرینیفارم (Araneiform) کہا جاتا ہے۔ یہ نشان صرف مریخ کے جنوبی علاقے میں بنتے ہیں، جہاں سردیوں کے موسم میں سطح زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی برف جم جاتی ہے۔

یہ نشان کیسے بنتے ہیں؟

مریخ کی سردیوں میں زمین پر خشک برف (کاربن ڈائی آکسائیڈ کی برف) کی ایک تہہ جم جاتی ہے۔ جب بہار آتی ہے اور سورج کی روشنی دوبارہ زمین پر پڑتی ہے، تو وہ روشنی برف کے پار ہو کر زمین کو گرم کرتی ہے۔اس گرمی کی وجہ سے نیچے جمی ہوئی خشک برف اچانک گیس میں بدل جاتی ہے۔ چونکہ یہ گیس برف کے نیچے پھنس جاتی ہے، اس لیے وہاں دباؤ بڑھتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب یہ گیس کسی کمزور جگہ سے پھٹ کر باہر نکلتی ہے، اپنے ساتھ دھول، مٹی اور ریت کو اوپر اچھال دیتی ہے۔

جب یہ دھول برف کے اوپر گرتی ہے، تو وہاں ایک سیاہ دھبہ بنتا ہے۔ ساتھ ہی نیچے کی سطح پر ایسے چھوٹے راستے بن جاتے ہیں جو مکڑی کی ٹانگوں کی طرح باہر کی طرف پھیلتے ہیں۔ جب برف مکمل طور پر پگھل جاتی ہے تو یہ نقش زمین پر رہ جاتے ہیں—بالکل مکڑی کی شکل کے۔



ناسا نے لیبارٹری میں یہ عمل دہرایا

یہ نظریہ کئی سالوں سے موجود تھا، مگر اسے حقیقت میں کبھی آزمایا نہیں گیا تھا—یہاں تک کہ ناسا کے سائنس دانوں نے ایک خاص تجربہ گاہ میں ایسا ماحول بنایا جو مریخ جیسا تھا۔ وہاں بہت کم درجہ حرارت اور کم ہوا کا دباؤ پیدا کیا گیا۔انہوں نے وہاں خشک برف کے تختے رکھے اور نیچے سے گرمی فراہم کی۔ کچھ دیر بعد برف کے نیچے گیس بنی، دباؤ بڑھا، اور پھر وہ گیس پھٹ کر اوپر نکلی۔ اس کے ساتھ مٹی اور دھول بھی اڑی، اور جب برف ہٹی تو زمین پر وہی مکڑی جیسے نقش بن چکے تھے۔

یہ پہلا موقع تھا جب سائنس دانوں نے مریخ پر ہونے والا یہ عمل زمین پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

یہ دریافت کیوں اہم ہے؟

یہ دریافت صرف ایک عجیب نشان کا حل نہیں، بلکہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ مریخ ایک زندہ اور حرکت کرنے والا سیارہ ہے۔ وہاں آج بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، چاہے وہاں پانی ہو یا نہ ہو، یا آتش فشاں پھٹتے ہوں یا نہ ہوں۔یہ نشان صرف برف اور گیس کے دباؤ سے بنتے ہیں، اور یہ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ مریخ کی سطح موسم کے ساتھ کیسے بدلتی ہے۔

مستقبل کے مشنز کے لیے فائدہ

اس سے سائنس دانوں کو مریخ کو اور بہتر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اگر ہم وہاں کبھی انسانوں کو بھیجیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سطح پر کیا ہو سکتا ہے، کہاں خطرہ ہو سکتا ہے، اور کیا چیزیں بدلتی ہیں۔یہ تجربہ مریخ کے ماضی کو سمجھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا وہاں کبھی زندگی کے لیے سازگار ماحول تھا یا ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے