
ایک وقت تھا جب موبائل فون صرف بات کرنے یا پیغام بھیجنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ دور لوگوں کے لیے سادہ، مضبوط اور بے فکری کا دور تھا۔ فون گر پڑے تو بھی زندہ رہتا، بیٹری دنوں تک چلتی، سادہ سا مینو ہوتا اور ایک مشہور گیم”سانپ والا گیم”ہر کسی کی پسندیدہ تفریح تھی۔۔ یہ یادیں آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اس زمانے میں موبائل کا مقصد محض رابطہ رکھنا تھا، اور زندگی نسبتاً پرسکون تھی۔ لوگ زیادہ وقت آمنے سامنے بیٹھ کر گزارتے، دوستوں سے گپ شپ لگاتے اور محلے میں کھیلے جانے والے کھیل روزمرہ کا حصہ تھے۔
پھر وقت بدلا اور سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا۔ سمارٹ فون عام ہو گئے، اور انٹرنیٹ پہلے سے کئی گنا تیز ہو گیا۔ لوگوں نے حقیقی دوست بنانے کے بجائے فیس بک پر جعلی دوست بنانا شروع کردیے۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ فیک فرینڈز اکثر حقیقت کے دوستوں سے زیادہ اچھے لگنے لگے۔
مزید جانیے.
زہریلے سانپوں کا بادشاہ، وہ شخص جس کا خون سانپ کے زہر کا توڑ تھا.
والدین نے بیٹے کو ایئرپورٹ پر چھوڑا اور خود جہاز میں بیٹھ گئے۔
چائے خانوں کی محفلیں، گلی محلّے کے کھیل، اور آمنے سامنے کی ہنسی مذاق آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے۔ اب دوستوں کے ساتھ کھیلنا تو دور، گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا وقت بھی کم ہو گیا ہے۔ اگر کبھی بیٹھ بھی جائیں تو بات چیت کم اور موبائل اسکرین پر نظریں زیادہ جمی رہتی ہیں۔ رشتوں میں قربت کم اور دوری زیادہ ہو گئی ہے، ہر کوئی اپنی فرضی دنیا میں کھویا ہوا ہے۔
اس نئے طرزِ زندگی نے ذہنی سکون بھی چھین لیا۔ موبائل کے بے جا استعمال اور سوشل میڈیا کے دباؤ نے ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسی بیماریوں کو جنم دیا۔ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے موازنہ کرنے لگے،اور اس موازنے نے لوگوں کو مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا۔
کچھ لوگ ہر چند منٹ بعد یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے، اس پرکتنے لائکس آ گئے ہیں، کس نے کمنٹ کیا ہے اور کس نے فالو کیا ہے۔ کچھ لوگ ہر وقت رِیلز دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اور ان کے لیے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یا بعد میں ایک ریل دیکھ لینا ضروری سا ہو گیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں "بس یہ ریل دیکھ لوں پھر کام کرتا ہوں”، کبھی کہتے ہیں "اچھا اب کام کر کے تھک گیا ہوں، ایک ریل دیکھ لیتا ہوں”، اور کبھی سونے سے پہلے کہتے ہیں "چلو سونے کا وقت ہو گیا ہے، ایک ریل دیکھ لیتا ہوں”۔ اس طرح وقت کا پتا ہی نہیں چلتا اور گھنٹے لمحوں میں گزر جاتے ہیں
آج تو یہ حال ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بلکہ اسمارٹ فون ہوتا ہے۔ ہم آہستہ آہستہ اس عادت اور انحصار کی ایسی دلدل میں پھنس رہے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ موبائل نے نہ صرف ہماری عادات بدل دیں بلکہ کئی لوگوں کی زندگیاں بھی چھین لیں، کبھی حادثات کی صورت میں، کبھی نیند کی کمی کی وجہ سے، اور کبھی ذہنی دباؤ کے ہاتھوں۔
یہ سچ ہے کہ موبائل ایک ضرورت ہے، لیکن اس کا بے قابو استعمال ہمارے رشتے، ہماری صحت اور ہماری خوشی سب کھا رہا ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اس کا استعمال محدود نہ کیا تو آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں پلیں گی جہاں حقیقی بات چیت، کھیل کود اور ذہنی سکون محض کتابوں اور کہانیوں میں ملے گا۔