
غزہ میں زندگی اب زندگی نہیں رہی۔ ایک زندہ لاش کی طرح، لوگ بھوک، پیاس اور بے بسی میں سسک رہے ہیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو نمک مِلا پانی یا جانوروں کے لیے رکھا گیا چارہ کھلا رہی ہیں کیونکہ کچھ اور باقی نہیں رہا۔ کسی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں، دوائیں ناپید، اسپتال ویران اور بازار خالی ہو چکے ہیں۔ مگر دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اقوامِ متحدہ صرف ایک نام کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ نہ اس کی قراردادیں کچھ کرتی ہیں، نہ اس کے بیانات کسی کو روکتے ہیں۔ روزانہ درجنوں لوگ مر رہے ہیں، لیکن لوگ صرف چند رسمی باتیں کر کے جان چھڑا لیتے ہیں۔ زبانی دعوے، جعلی ہمدردی، اور میڈیا کی چند سرخیاں— حقیقت یہ ہے کہ جس پر گزر رہی ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ یہ عذاب کیا ہوتا ہے۔
لوگ درختوں کے پتے، گھاس اور حتیٰ کہ نمک کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی کہانی یا جذباتی ڈرامہ نہیں، بلکہ ایک زندہ، دردناک حقیقت ہے۔ جس ماں کے بچے بھوک سے تڑپتے ہوں، جو باپ دن بھر ایک لقمے کی تلاش میں پھرے اور خالی ہاتھ واپس لوٹے—اس کا دکھ صرف وہی سمجھ سکتا ہے، جو خود اس آگ سے گزر رہا ہو۔
مزید جانیے.
ڈھاکہ میں فوجی طیارہ اسکول پر گر گیا، 20 افراد جاں بحق.
غیرت کے نام پر بلوچستان میں ایک اور جوڑا موت کی گھاٹ اتر گیا۔
ایک چارج میں 180 کلومیٹر کا سفر، بائیک ہو تو ایسی.
خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، مگر بازاروں میں کچھ ہے ہی نہیں۔ جو چیزیں کبھی روزمرہ کی ضرورت ہوا کرتی تھیں، وہ اب خواب بن چکی ہیں۔ بچے صرف روٹی یا چائے پر زندہ ہیں—اگر نصیب ہو تو۔ ورنہ ساری رات خالی پیٹ روتے ہیں، اور ماں باپ انہیں دیکھ کر صرف آنسو پی سکتے ہیں۔
پانی کا حال یہ ہے کہ لوگ سیوریج ملا، کھارا یا زہریلا پانی پی کر بیمار ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے پاس دوائیں نہیں، اسپتالوں کے دروازے بند، اور امداد صرف خبروں میں دکھائی دیتی ہے۔ ہزاروں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں، اور ہر دن کئی معصوم جانیں چلی جاتی ہیں—خاموشی سے، بغیر کسی ماتم، بغیر کسی احتجاج کے۔
دنیا کے بڑے بڑے ممالک، انسانی حقوق کے علمبردار، سب خاموش ہیں۔ اقوامِ متحدہ، عالمی تنظیمیں، سب نے غزہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ صرف زبانی مذمت، وقتی تشویش، اور پھر خاموشی۔ ان کے اجلاس ہوتے ہیں، بیانات آتے ہیں، تصویریں کھنچتی ہیں، اور پھر سب واپس اپنی پرسکون دنیا میں لوٹ جاتے ہیں۔
مگر جو غزہ میں ہے، اس کی راتیں قبر جیسی اور دن آگ جیسے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ یہ وہ درد ہے جسے نہ کوئی میڈیا دکھاتا ہے، نہ کوئی لیڈر محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ اصل تکلیف صرف وہی جانتا ہے جو اُس وقت اُس زمین پر کھڑا ہوتا ہے، جہاں روٹی کی جگہ نمک کھایا جا رہا ہو۔