چاند پر عمارتیں؟ چین نے اینٹیں بنانے والی خلائی مشین بنالی.

چین کے سائنسدانوں نے چاند کی مٹی سے اینٹیں بنانے والی ایک خاص مشین تیار کر لی ہے، جسے چاند پر مستقل میں رہائش اور انفراسٹرکچر کے لیے ایک بڑی پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ مشین مشرقی چین کے شہر حفی میں قائم "ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن لیبارٹری” میں تیار کی گئی ہے، اور اس کا مقصد چاند پر موجود مٹی کو استعمال کرتے ہوئے بغیر کسی اضافی مواد کے عمارتیں تعمیر کرنا ہے۔

اس مشین کا بنیادی کام سورج کی روشنی کو اس قدر طاقتور بنانا ہے کہ وہ چاند کی مٹی کو پگھلا سکے۔ سورج کی شعاعوں کو ایک خاص قسم کے شیشے نما آئینے (parabolic reflector) کے ذریعے ایک چھوٹے سے مقام پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ پھر یہ توانائی فائبر آپٹک کے ذریعہ ایک جگہ منتقل کی جاتی ہے، جہاں اس کی شدت عام روشنی سے تین ہزار گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس انتہائی تیز روشنی کی مدد سے مٹی کو پگھلایا جاتا ہے، جس کے بعد اسے سانچوں میں ڈال کر سخت اینٹوں کی شکل دی جاتی ہے۔



ان اینٹوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ 100 فیصد چاند کی اپنی مٹی سے تیار کی جاتی ہیں، اور ان میں کسی قسم کا کیمیکل یا اضافی مادہ شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ اینٹیں نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ گرمی، خلا اور ممکنہ تابکاری کے خلاف اچھی مزاحمت رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے انہیں چاند پر سڑکیں بنانے، پلیٹ فارم تعمیر کرنے، اور آلات نصب کرنے کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سائنسدانوں نے یہ مشین دو سال کی مسلسل محنت اور تجربات کے بعد تیار کی ہے۔ چاند کی مٹی کا ہر علاقے میں الگ کیمیائی ڈھانچہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مشین کو مختلف اقسام کی مٹی پر آزمائش کے مراحل سے گزارا گیا۔ سائنسدانوں نے زمین پر مصنوعی چاند جیسی مٹی تیار کی تاکہ مشین کی کارکردگی کو ہر ممکن طریقے سے جانچا جا سکے۔

حالانکہ اس مشین کی تیاری ایک اہم کامیابی ہے، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چاند پر انسانی رہائش کے قابل مکمل تعمیرات کے لیے مزید کئی چیلنجز باقی ہیں۔ چونکہ چاند کی فضا نہایت پتلی ہے، کششِ ثقل بھی بہت کم ہے، اس لیے صرف مٹی کی اینٹوں پر انحصار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اینٹوں کو سخت دھاتی ڈھانچوں اور پھولنے والے سافٹ ماڈیولز کے ساتھ جوڑ کر ہی ایک مکمل رہائشی ڈھانچہ بنایا جا سکے گا۔

اس مشین کو چاند پر استعمال کرنے سے پہلے اس پر خلا میں بھی تجربات کیے جا رہے ہیں۔ نومبر 2024 میں چین نے اپنی خلائی گاڑی تیان ژو-8 کے ذریعے چاند کی مٹی سے بنی مصنوعی اینٹیں اپنے خلائی اسٹیشن پر بھیجیں۔ خلا میں موجود سائنسدان ان اینٹوں پر تجربات کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ خلا کی سختی، گرمی اور ریڈی ایشن کا کس حد تک سامنا کر سکتی ہیں۔

چین کا یہ منصوبہ "انٹرنیشنل لونر ریسرچ اسٹیشن” کا حصہ ہے، جو 2035 تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک بنیادی بیس بنانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد 2040 کی دہائی میں ایک بڑی توسیع کی جائے گی۔ اب تک 17 سے زائد ممالک اور 50 سے زیادہ عالمی تحقیقی ادارے اس منصوبے میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

یہ مشین ابھی تک چاند پر بھیجی نہیں گئی، مگر آنے والے مشنز میں اسے چاند کی سطح پر آزمایا جائے گا۔ اگر یہ کامیاب ہوئی، تو یہ مشین انسان کے چاند پر بسنے کی طرف بڑھنے والے قدموں میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو گی، اور ممکن ہے مستقبل میں مریخ جیسے سیاروں پر بھی اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے