اونٹ کے آنسو، سانپ کے زہر کا حیران کن اور سستا علاج.

 اونٹ کے آنسو: سانپ کے زہر کا قدرتی علاج؟

کیا آپ یقین کریں گے اگر کوئی کہے کہ اونٹ کے آنسو سانپ کے زہر کا علاج بن سکتے ہیں؟ یہ بات کسی دیوانے کا خواب یا صحرائی داستان لگ سکتی ہے، لیکن ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ دعویٰ حقیقت میں بدل دیا ہے۔ صحراؤں میں خاموشی سے چلنے والا ایک عام سا جانور، جسے لوگ محض سواری یا دودھ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس کے آنکھوں سے نکلنے والا ایک قطرہ، مہلک سانپ کے زہر کو بے اثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ وہ دریافت ہے جو نہ صرف سائنس دانوں کو حیران کر رہی ہے بلکہ اُن علاقوں کے لیے امید کی نئی کرن بھی ہے جہاں ہر سال ہزاروں افراد سانپ کے زہر کا شکار بنتے ہیں۔

یہ حیران کن تحقیق مصر اور سعودی عرب کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے، اور اس کی قیادت قاہرہ یونیورسٹی کے ماہرِ ڈاکٹر ابراہیم السید نے کی۔ ان کی ٹیم برسوں سے اس بات پر تحقیق کر رہی تھی کہ قدرتی ذرائع، خاص طور پر ریگستانی جانوروں کے جسمانی مادے، زہریلے اثرات کو کم کرنے میں کس حد تک مؤثر ہو سکتے ہیں۔ اس تحقیق میں انہوں نے خاص توجہ اونٹ کے آنسوؤں پر دی، ایک ایسا عنصر جسے پہلے کبھی سنجیدگی سے نہیں جانچا گیا تھا۔

جب اونٹ کے آنسوؤں کے نمونے لیے گئے اور ان کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا تو ماہرین دنگ رہ گئے۔ ان آنسوؤں میں نینو باڈیز (Nanobodies) پائے گئے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ عام اینٹی باڈیز کے مقابلے میں کئی گنا چھوٹے ہوتے ہیں، اور زہریلے مالیکیولز تک آسانی سے پہنچ کر ان کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں اور اُنہیں غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔



تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اونٹ کے آنسو لیکٹوفرین اور لائزو زائم جیسے طاقتور قدرتی پروٹینز سے بھرپور ہوتے ہیں، جو اینٹی بیکٹیریل اور سوزش کم کرنے والے خواص رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان میں مخصوص پیپٹائیڈز اور انزائمز بھی پائے گئے جو خلیاتی سطح پر زہر کے اثر کو کم کرتے ہیں۔ جب ان آنسوؤں کو سانپ کے زہر کے ساتھ خلیاتی ماڈلز پر آزمایا گیا تو نتائج حیرت انگیز نکلے۔ خلیات کی موت میں 60 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ یہاں تک کہ خطرناک زہریلا انزائم Phospholipase A2 (PLA2) بھی اونٹ کے آنسو کے اجزاء کی موجودگی میں تقریباً غیر مؤثر ہو گیا۔

اس کے بعد تجربات جانوروں پر کیے گئے۔ جب زہریلے سانپوں کے زہر کو چوہوں کو دیا گیا اور ساتھ ہی اونٹ کے آنسو بھی، تو وہ چوہے زیادہ دیر تک زندہ رہے اور ان کے جسم پر زہر کے اثرات بھی کم دیکھے گئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اونٹ کے آنسو صرف زہر کو روکنے میں مددگار نہیں بلکہ جسم کو زہر کے نقصان سے بچانے میں بھی مؤثر ہو سکتے ہیں۔

یہ تحقیق ان خطوں کے لیے ایک انقلابی دریافت ثابت ہو سکتی ہے جہاں سانپ کا زہر زندگی کا معمول بن چکا ہے، جیسے جنوبی ایشیا، افریقہ، اور لاطینی امریکہ۔ وہاں پر روایتی اینٹی وینم مہنگے، کم دستیاب، اور بعض اوقات الرجی یا دوسرے نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس، اونٹ کے آنسو ایک قدرتی، آسان اور کم سائیڈ ایفیکٹس والا حل بن سکتا ہے — خاص طور پر ان دور دراز علاقوں کے لیے جہاں فوری طبی امداد دستیاب نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر ابراہیم السید کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد روایتی اینٹی وینم کا نعم البدل تیار کرنا نہیں، بلکہ ایک فوری، سادہ اور قدرتی ابتدائی علاج فراہم کرنا ہے جو سانپ کے کاٹنے کے بعد فوراً استعمال کیا جا سکے، تاکہ زہر کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے جب تک مریض اسپتال نہ پہنچ جائے۔

یہ تحقیق ہمیں اس اہم حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ قدرت میں وہ خزانے چھپے ہیں جنہیں ہم نے ابھی پوری طرح دریافت نہیں کیا۔ اونٹ، جو ہمیں محض ایک سخت جان جانور لگتا ہے، اب ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ قدرتی دنیا میں غیر متوقع چیزیں کس طرح ہماری جانیں بچا سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو ایک شیشی میں جمع کیا گیا اونٹ کا آنسو، ایک ایسی دوا بن جائے جو لاکھوں زندگیاں بچا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے