
فلوریڈا کے تپتے سورج تلے، بل ہاسٹ کی کہانی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو زہریلے سانپوں کے درمیان زندگی گزارتا تھا، لیکن ان کی زندگی کا اصل مقصد صرف سانپوں سے کھیلنا نہیں تھا، بلکہ ان کے زہر کے خلاف بنی ہوئی اپنی مدافعتی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں کی جانیں بچانا تھا۔ ان کی زندگی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے جہاں ان کے خون کے چند قطرے کسی کے لیے زندگی کی آخری امید بن کر سامنے آئے۔
بل ہاسٹ 1910 میں نیو جرسی میں پیدا ہوئے۔ ان کی سانپوں میں دلچسپی بچپن سے ہی شروع ہو گئی تھی، اور اس دلچسپی کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جس جگہ پیدا ہوئے وہاں بہت سی اقسام کے زہریلے سانپ پائے جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ، یہ دلچسپی ایک گہرے جنون میں بدل گئی۔ انہوں نے ہوابازی(aviation) کی تعلیم حاصل کی اور پین امریکن ورلڈ ایئرویز میں کام کرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے انہیں دنیا کے مختلف حصوں کا سفر کرنے اور سانپوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
1946 میں، انہوں نے اپنے بچائے ہوئے پیسوں سے میامی سرپینٹاریئم (Miami Serpentarium)کھولا، جو جلد ہی ایک مقبول سیاحتی مقام بن گیا۔ یہاں وہ خطرناک سانپوں، خاص طور پر کوبرا، کے ساتھ لائیو پرفارمنس دیتے تھے اور لوگوں کے سامنے ان سے زہر نکالتے تھے۔ یہ شو ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور لاکھوں لوگ اسے دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ایک دن ایک شو کے دوران، ان کی ایک انگلی پر ملایان پٹ وائپر (Malayan Pit Viper) نے کاٹ لیا، جس کے بعد انہیں اپنی انگلی کاٹنی پڑ گئی۔
مزید جانیے.
بحر الکاہل کے نیچے ایک ایسا گڑھا دریافت ہوا ہے جو دنیا کو تباہ کر سکتا ہے.
ایسی نایاب اور خوفناک بیماری جو انسان کو درخت جیسا بنا دیتی ہے.
بغیر منہ کے پیدا ہونے والے انسان کی حیران کن کہانی!
1948 میں بل ہاسٹ نے ایک غیر معمولی اور خطرناک راستہ اپنایا، جس کا مقصد اپنے جسم کو سانپوں کے زہر سے محفوظ کرنا تھا تاکہ وہ زہر زدہ افراد کی جانیں بچا سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، انہوں نے خود کو زہر کی چھوٹی لیکن بتدریج بڑھتی ہوئی مقدار میں انجیکٹ کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ان کے جسم میں زہر کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہو گئیں۔ اس کی بدولت، بل ہاسٹ 2008 تک 172 سے زیادہ زہریلے سانپوں کے ڈسنے کے باوجود زندہ رہے، جن میں سے 20 سے زائد ایسے ڈنک تھے۔ جو بآسانی جان لیوا ثابت ہو سکتے تھے۔لیکن ان کے اس جنون نے ان کی جلد کو بھی متاثر کیا، اور ایک شخص نے ان کی جلد کی رنگت کو "راکھ جیسا” قرار دیا،جو سانپوں کے زہر کی وجہ سے ایسی ہو گئی تھی۔
ہاسٹ کا مقصد صرف اپنی زندگی بچانا نہیں تھا۔ وہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خون میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز نے ان کے خون کو ایک قسم کے اینٹی وینم میں تبدیل کر دیا تھا۔ انہوں نے 20 سے زیادہ سانپ کے ڈسے ہوئے مریضوں کو اپنا خون عطیہ کر کے ان کی جان بچائی، جن میں ایک چھوٹا بچہ بھی شامل تھا جو ایک زہریلے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے موت کے قریب تھا۔
اس کا نام شاید آج کسی کو یاد نہ ہو، مگر اس کی ماں کے لیے وہ لمحہ ہمیشہ زندہ رہے گا جب اس کا ننھا بچہ ایک خطرناک سانپ کے کاٹنے کے بعد موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بچے کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہاں موجود ڈاکٹرز نے بے بسی سے سر جھکا دیا۔ ان کے پاس اس خاص نسل کے سانپ کے زہر کا توڑ (antivenom) موجود نہیں تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور بچے کی سانسیں ہلکی ہوتی جا رہی تھیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ امید دم توڑ رہی تھی۔ ایسے میں کسی نے بے تابی سے بل ہاسٹ کا نام لیا۔
ہسپتال کے عملے نے فوراً بل ہاسٹ سے رابطہ کیا، جو بغیر کسی جھجک کے اپنا خون دینے کو تیار ہو گئے۔ ان کے خون میں موجود انمول اینٹی باڈیز نے بچے کے جسم میں زہر کا اثر تیزی سے کم کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچے کی سانسیں معمول پر آنے لگیں، اور اس کے چہرے پر زندگی کی سرخی لوٹ آئی۔ ہسپتال کا کمرہ امید کی روشنی سے جگمگا اٹھا، اور ہاسٹ خاموشی سے مسکرا کر وہاں سے چلے گئے، گویا یہ ان کے لیے معمول کی بات تھی۔
1949 میں انہوں نے یونیورسٹی آف میامی کے ایک ریسرچر کو پولیو کے علاج کے لیے زہر فراہم کیا، جس سے کچھ حوصلہ افزا نتائج بھی سامنے آئے، لیکن بعد میں سالک ویکسین کی دریافت کے بعد یہ تحقیق ختم ہو گئی۔
1984 میں، میامی سرپینٹاریئم(Miami Serpentarium) میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں ایک مگرمچھ نے ایک لڑکے کو مار دیا۔ اس واقعے کے بعد ہاسٹ نے سرپینٹاریئم بند کر دیا۔ اس کے بعد وہ فلوریڈا کے شہر پنٹا گورڈا میں منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے میامی سرپینٹاریئم لیبارٹریز کھولیں اور صرف طبی اور تحقیقی مقاصد کے لیے زہر تیار کرتے رہے۔
بل ہاسٹ 15 جون 2011 کو 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی بہادری اور غیر معمولی زندگی کی داستان آج بھی زندہ ہے۔ ان کی کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے اپنی زندگی کے خطرناک تجربات کو انسانیت کی خدمت کا ذریعہ بنایا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اس طرح کے مہلک تجربات کو دہرانا نہیں چاہیے۔