
بنوں، خیبر پختونخوا – خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں منگل کی شام ایک خوفناک دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں بارود سے بھری گاڑیوں کو فوجی اڈے سے ٹکرا کر زوردار دھماکے کیے گئے۔ اس حملے میں 12 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔ حملے کے بعد دہشت گردوں نے اڈے میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حملہ ناکام بنا دیا اور فائرنگ کے تبادلے میں 6 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک پہلے ہی دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ حملہ پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتا ہے، جس کا مقصد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
حملے کی تفصیلات
حملہ منگل کی شام افطار کے وقت کیا گیا، جب لوگ روزہ افطار کرنے اور نماز میں مصروف تھے۔ دہشت گردوں نے دو خودکش گاڑیوں کو فوجی اڈے سے ٹکرا دیا، جس کے نتیجے میں شدید دھماکے ہوئے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ دھماکوں کے فوراً بعد مزید دہشت گردوں نے اڈے میں گھسنے کی کوشش کی، مگر مستعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انہیں مار گرایا۔
عینی شاہدین کے مطابق، دھماکوں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ قریبی گھروں اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے، جبکہ ایک مسجد کی چھت بھی گر گئی، جس کے باعث امام مسجد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ علاقے میں آگ بھڑک اٹھی، جس پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کو طلب کیا گیا۔
جانی و مالی نقصان
اب تک کی اطلاعات کے مطابق، اس حملے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔ مزید 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق، بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
دھماکوں سے فوجی اڈے کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا، جبکہ کئی قریبی دکانیں، مکانات اور گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ حکام کے مطابق، علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو مزید روکا جا سکے۔
حکومتی ردعمل اور سیکیورٹی اقدامات
وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن عناصر پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گی۔ انہوں نے سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے بھی حملے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے زخمیوں کو فوری اور بہترین طبی امداد فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے بنوں اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مشترکہ آپریشن کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی مزید دہشت گردانہ کارروائی کو روکا جا سکے۔
دہشت گردی میں اضافے کی ممکنہ وجوہات
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ زیادہ تر حملے پولیس، فوجی تنصیبات اور حساس مقامات پر کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ حملے ان دہشت گرد گروہوں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں جو پاکستان میں امن و استحکام کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر عسکریت پسند گروہ ماضی میں بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ حالیہ حملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
نتائج اور مستقبل کے اقدامات
بنوں میں ہونے والا یہ حملہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تاہم، سیکیورٹی فورسز کی بروقت اور مؤثر کارروائی کی بدولت ایک بڑا سانحہ ٹل گیا۔
حکومت اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کو مزید تیز کر رہے ہیں تاکہ ملک میں امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔ عوام سے بھی اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع فوراً حکام کو دیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت روکا جا سکے۔
پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے مزید سخت اقدامات کریں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں سے محفوظ رہا جا سکے۔