
ایک لڑکی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے لایا جا رہا ہے۔ سامنے بندوق بردار مرد کھڑے ہیں، پیچھے صدیوں پرانی روایات کا بوجھ، اور چاروں طرف خاموش تماشائی۔ لیکن وہ لڑکی… نہ رو رہی ہے، نہ چیخ رہی ہے۔ اُس کے ہاتھوں میں صرف ایک چیز ہے — قرآنِ پاک۔ اور اُس کی زبان پر ایک جملہ جو وہاں موجود ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیتا ہے.
"اگر میری موت سے تمہیں سکون ملتا ہے تو گولی مار دو — لیکن میرے جسم کی بے حرمتی مت کرنا۔”
یہ کوئی افسانہ نہیں، یہ سچ ہے۔ اور یہ سچ اتنا طاقتور ہے کہ آپ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔
مزید جانیے.
ماں نے بیٹے کو روکنے کے لیے فلائٹ میں بم کی جھوٹی اطلاع دے دی.
بغیر منہ کے پیدا ہونے والے انسان کی حیران کن کہانی!
ایک ایسا جہاز جو 47 سال سے خلا میں اُڑ رہا ہے۔
بلوچستان کے ایک قبائلی علاقے میں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی — جن کے دل محبت کے رشتے میں بندھ چکے تھے — نے خاندان کی مرضی کے بغیر شادی کر لی۔ یہ قدم اُس معاشرے کے لیے ناقابلِ برداشت تھا جہاں عورت کی مرضی جرم اور مرد کی غیرت فیصلہ بن جاتی ہے۔ جلد ہی بات قبیلے تک پہنچی، اور ایک روایتی جرگہ بلایا گیا۔ اس جرگے نے اپنی صدیوں پرانی "روایت” کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا: دونوں کو قتل کر دیا جائے۔
لڑکے کو پہلے مار دیا گیا۔ اور پھر لائی گئی وہ لڑکی جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اُس نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کیا۔ توقع تھی کہ وہ روئے گی، منت سماجت کرے گی، شاید قدموں پر گِر جائے۔ مگر وہ قرآن اٹھائے خاموشی سے آگے بڑھی۔ اُس نے کوئی چیخ نہیں ماری، کوئی آنسو نہیں بہایا۔ صرف ایک جملہ کہا — ایسا جملہ جو پتھر دلوں کو بھی لرزا دے۔
اس کے بعد اس سے قرآن چھین لیا گیا، اور گولی مار دی گئی۔ مگر وہ لمحہ — جب اُس نے سب کے سامنے اپنا حق مانگا، جب اُس نے ظلم کے آگے سر جھکانے سے انکار کیا — وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔
ان دونوں کی موت ایک فرد کا قتل نہیں، ایک سوچ کی شہادت ہے۔ اُس نے صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ ان ہزاروں لڑکیوں کے لیے آواز بلند کی جو آج بھی رسم و رواج کے اندھے اندھیرے میں زندگیاں ہار رہی ہیں۔ اُس کی خاموشی ایک چیخ تھی — ایسی چیخ جو وقت کے ہر جرگے، ہر قاتل، اور ہر بے حس تماشائی کے ضمیر پر سوال بن کر گونجے گی۔
محبت کو قتل کرنے کا اختیار تمہیں کس نے دیا؟
یہ سوال اب صرف ان دونوں کا نہیں جن کو قتل کر دیا ہے، یہ ہم سب کا سوال ہے۔