
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بارشوں کا وقت بدل رہا ہے؟ سردیاں اب وہ ٹھنڈی نہیں رہیں؟ یا گرمی پہلے سے زیادہ شدید ہو گئی ہے؟ یہ سب اتفاق نہیں۔ دنیا بھر میں موسم بدل رہا ہے، اور پاکستان پر اس کے اثرات سب سے زیادہ خطرناک انداز میں ظاہر ہو رہے ہیں۔2024 کی خشک سردی، 2025 کی شروعات میں معمولی بارشیں، پھر ایک ہی ہفتے میں شدید ژالہ باری اور دو زلزلے — یہ سب حادثات نہیں، بلکہ ایک بڑی ماحولیاتی تبدیلی کا اشارہ ہیں۔ دراصل، یہ قدرت کی وہ آواز ہے جو ہمیں بار بار خبردار کر رہی ہے.
"اب سنبھل جاؤ، ورنہ دیر ہو جائے گی!”
سال 2024 کی سردیاں پاکستان کے لیے کچھ مختلف تھیں۔ اس بار نہ دھند چھائی، نہ بارشیں ہوئیں، اور نہ ہی وہ خنکی محسوس ہوئی جو ہمارے لیے عام ہوتی ہے۔ زمین سوکھی رہی، درخت پیاسے رہے اور کسان آسمان کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ یہ پہلی وارننگ تھی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں۔ پھر جیسے ہی سال 2025 کا آغاز ہوا، کچھ ہلکی پھوار نے امید دلائی کہ شاید موسم کا رویہ تبدیل ہو گیا ہو، لیکن یہ امید زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
اسلام آباد سمیت مختلف علاقوں میں ایسی ژالہ باری ہوئی جو تاریخ میں شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو۔ بڑے بڑے برف کے گولے آسمان سے یوں گرنے لگے جیسے پتھر برس رہے ہوں۔ گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، ان کی باڈی پر گہرے ڈینٹ پڑ گئے، درختوں کے پتے جھڑ گئے اور ان کی ٹہنیاں ایسے لگنے لگیں جیسے کسی نے ان پر گولیاں چلائی ہوں۔ شیشے کی عمارتیں اور سولر پینل بھی اس طوفان سے بچ نہ سکے۔ فصلیں، جو کسانوں کی امید ہوتی ہیں، وہ بھی برباد ہو گئیں۔ یہ صرف قدرتی آفت نہیں تھی بلکہ ایک انتباہ تھی۔
اور اسی ہفتے شمالی پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے علاقوں میں دو بار زلزلہ محسوس کیا گیا۔ اگرچہ ان کی شدت معمولی تھی، لیکن ان کا تسلسل پریشان کن تھا۔ لوگ خوفزدہ ہو گئے، گھروں سے باہر نکل آئے، اور ان علاقوں میں بے چینی پھیل گئی۔ زمین جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو، جیسے وہ چیخ رہی ہو کہ "میرے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ ناقابل برداشت ہے۔”
مزید جانیے.اگر تمام انسان ایک ساتھ سمندر میں بیٹھ جائیں تو کیا ہوگا؟
یہ سب واقعات ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جا رہے ہیں جسے ہم اکثر نظرانداز کرتے ہیں: ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے، اور یہ ہم سب کے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔
سائنس اس بارے میں واضح ہے۔ جب گلیشیئرز یعنی پہاڑوں پر موجود برف تیزی سے پگھلتی ہے، تو زمین کا توازن بگڑتا ہے۔ یہ برف صرف ٹھنڈک کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ زمین کو ایک خاص وزن دیتی ہیں جو زلزلوں کے خلاف ایک قدرتی بیلنس قائم رکھتی ہیں۔ جیسے ہی یہ برف تیزی سے ختم ہوتی ہیں، زمین کے نیچے دباؤ بڑھنے لگتا ہے اور وہ ہلنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو کاٹ کر عمارتوں اور سڑکوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو زمین کی بنیاد کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ جب پہاڑ ٹوٹتے ہیں، تو زمین کی قدرتی گرفت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ سال 2025 دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی تو اس کے اثرات ناقابل برداشت ہوں گے۔ گرمی کی شدید لہریں، پانی کی قلت، خشک سالی، اور فصلوں کی تباہی جیسے مسائل ہر عام انسان کو متاثر کریں گے۔ ہمارے شہروں میں شدید گرمی سے بجلی کا نظام فیل ہو سکتا ہے، بیماریاں پھیل سکتی ہیں، اور خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم درخت لگائیں، لیکن وہ درخت جو ہمارے ماحول کے مطابق ہوں، نہ کہ ایسے درخت جو صرف خوبصورتی کے لیے لگائے جائیں۔ مقامی درخت کم پانی میں بھی نشوونما پاتے ہیں اور زمین کو مضبوط کرتے ہیں۔ دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ ہم اپنے تعمیراتی طریقے بدلیں۔ پہاڑوں کو کاٹ کر ترقی کرنا خود کو تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ ہمیں ایسی تعمیرات کی طرف جانا ہوگا جو ماحول دوست ہوں اور موجودہ زمین کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ایئر کنڈیشنرز کا زیادہ استعمال گرین ہاؤس گیسز کو بڑھاتا ہے جو کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کا بڑا سبب ہے۔ ہمیں اس کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا اور قدرتی ہواداری کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔
یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی کچھ نہ کیا تو آنے والے وقت میں ہمارے بچوں کو صرف قدرتی آفات نہیں، بلکہ پانی، خوراک اور زندگی کے لیے بھی جنگ لڑنی پڑے گی۔ زمین ہمیں مسلسل خبردار کر رہی ہے، سوال صرف یہ ہے کہ ہم اس کی بات کب سمجھیں گے۔
ماحول کی حفاظت صرف حکومت کا کام نہیں۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے آج اپنا کردار ادا کیا، تو کل کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ یاد رکھیں، قدرت کی زبان میں معافی نہیں ہوتی، صرف نتائج ہوتے ہیں۔